Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

 بدلتی قسمت
 از مہمل نور 
قسط نمبر1

وہ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے تنویر صاحب اور عالیہ بیگم بہت ہی غصے میں کھڑے تھے۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اب اسے ان دونوں کے سوالوں کے جواب دینے پڑے گے۔۔۔ وہ لوگ جو اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے۔۔آج وہی اسے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔۔۔ لیکن یہ نئی بات نہیں تھی۔۔یہ سب تو اسکی قسمت میں لکھا جا چکا تھا۔۔۔
کہا سے آرہی ہو تم۔۔۔تنویرصاحب نے رعب دار آواز میں پوچھا۔۔۔
چچا ایمان اور ایمن کے لیے کچھ چیزیں لینے گئی تھی۔۔۔۔۔۔ہانیہ سہمے ہوۓ انداز میں بول رہی تھی۔۔۔
کیوں گئی تھی تم۔۔۔کسی اور کو نہیں کہہ سکتی تھی۔۔۔اگر کوئی دیکھ لیتا تو کس قدر بےعزتی ہوتی ہماری۔۔۔گھر میں رہو بچیاں سمبھالو اپنی۔۔۔ہم نوکر نہیں ہے تمہارے۔۔۔جہاں دل کرتا ہے منہ اٹھا کر چلی جاتی ہو۔۔۔سچ سچ بتاؤ چیزیں لینے گئی تھی یا۔۔۔اس سے پہلے عالیہ مزید کچھ کہتی۔۔۔
ہانیہ  فوراً بولی۔۔۔۔خدا کے لیے چچی۔۔۔میرے کردار پر کوئی انگلی مت اٹھائے۔۔۔۔میں آپ کو ہزار بار کہہ چکی ہوں۔۔۔۔مجھے میری زندگی جینے دیں۔۔۔مجھ پر وہ الزام مت لگاۓ جو میں نے کیے ہی نہیں۔۔۔آنسو تھے کہ اسکے گال بھیگو رہے تھے۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔یہ بات اپنے شوہر سے طلاق لینے سے پہلے سوچنی تھی۔۔۔شرم نہیں آئی تھی اسے چھوڑتے ہوۓ ۔۔۔اپنا نہیں تو اپنی اولاد کا ہی سوچ لیتی۔۔۔باپ کی محبت سے محروم کر دیا انھیں۔۔۔
عالیہ بس کرو۔۔۔اور تم جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔اور خبر دار گھر سے نکلی۔۔۔کوئی ضرورت نہیں ہے باہر نکلنے کی۔۔۔تنویر صاحب سپاٹ لہجے میں بولے۔۔۔
پر چچا۔۔۔ہانیہ نے بے بسی سے انکی طرف دیکھا۔۔جو اپنے کمرے کی طرف بڑھ چکے تھے۔۔۔
اور یہ چیزیں دے کر جلدی سے نیچے آجاؤ۔۔۔کچن کی صفائی کرو۔۔۔اور ہاں کچھ کھانے کے لیے بنا لو۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔ہانیہ بس یہی کہہ سکی۔۔۔
اور ہاں خبردار کل کی طرح آج بھی اپنی بچیوں کے لیے کچھ بنایا۔۔۔کچن میں چیزیں مفت نہیں آتی۔۔پیسے لگتے ہیں۔۔۔تمہارا باپ تو کچھ چھوڑ کر نہیں گیا۔۔اور تم بھی آکر ہمارے سر پر بیٹھ گئی ہو۔۔پتا نہیں تم سے جان کب چھوٹے گی کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
اور انکی بات پر ہانیہ بت بنی کھڑی رہی۔۔کہتی بھی تو کیا۔۔۔کوئی بھی جواب نہیں تھا اسکے پاس۔۔
**********
ہانیہ کمرے میں آئی تو آنکھوں سے آنسو بن موسم کی بارش کی طرح برس رہے تھے جنہیں وہ بے دردی سے صاف کر رہی تھی۔۔۔یہ ایمان آپ کی چیزیں۔۔۔۔ایمن سو رہی ہے جب وہ اٹھے گی تب آپ اسے بھی دینا ٹھیک ہے میرا بیٹا۔۔۔سب کچھ بھلا کر  اب وہ محبت سے اپنی تین سال کی بیٹی سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے ماما۔۔۔ایمان محبت سے اسے چیزیں لیتی ہوئی بولی۔۔۔
اب میں کچن میں جا رہی ہوں۔۔۔آپ نے کوئی شرارت نہیں کرنی۔۔۔اور بہن کو بھی تنگ نہیں کرنا۔۔۔
اوکے ماما۔۔۔
شاباش۔۔۔کہتے ہوئے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔
ماما۔۔۔ایمان نے اسے آواز دی۔۔۔
وہ جو چاند قدم ہی آگے بڑھی تھی ایمان کی آواز پر مڑی۔۔۔
جی ماما کی جان۔۔۔ایمان اسکے قریب بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔۔ابھی بھی اسکی آنکھ سے آنسو گرنا روکے نہیں تھے۔۔۔
آپ تیو رورائی ہیں۔۔۔ایمان نے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پوچھا۔۔۔
اور اسکے سوال پر ہانیہ نے اسے گلے لگا لیا۔۔اور زاروقطار رونا شروع کر دیا۔۔اسکے پاس فلحال اسکی بیٹیاں ہی اسکا سہارا تھیں۔۔۔اور آج جب ایمان نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اسے لگا وہ اکیلی نہیں ہے اسکے ساتھ اسکی بیٹیاں ہیں۔۔۔جن کے ساتھ وہ اپنا دکھ باٹ سکتی ہے۔۔۔
جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو ہانیہ نے اسے خود سے دور کیا۔۔۔ایمان نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔
ماما آپ مت روئے۔۔۔ایمان نے معصومیت سے کہا۔۔۔
اب ماما نہیں روئے گی۔۔۔ہانیہ اسکے ننھے ہاتھو کو بار بار چم کر بول رہی تھی۔۔۔
چلے اب دیر ہو رہی ہے۔۔میں چلتی ہوں ورنہ ماما کو ڈانٹ پڑ جاۓ گی۔۔۔کہتے ہوئے فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیونکہ اب وہ ایک پل کے لیے بھی ایمان کے پاس روکنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
*********
چھوڑدو اس کو کتنی بار کہا ہے مت تنگ کیا کرو۔۔۔پاکیزہ بیگم ثمر اور سجل کو بول رہی تھیں۔۔۔۔
امی آپ اس کو کچھ کیوں نہیں کہتی۔۔۔فضول میں میرے بال کھینچ کر بھگ جاتا ہے۔۔۔ہاتھ میں جوتا پکڑے سجل ثمرکے پیچھے بھگ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے اسکے بال کھینچ کر بھاگا تھا۔۔۔
تم بھی تو اسکو چپس نہیں دیتی۔۔میں نے تم دونوکے لیے بنائی تھی۔۔۔صرف تمہارے لیے نہیں جو قبضہ کیے بیٹھی ہو۔۔۔ اور تم لوگو کی یہ عمر ہے ایسے لڑنے کی۔۔۔پاکیزہ بیگم ہاتھ میں بيلن پکڑے کچن کے دروازے پر کھڑی بول رہی تھیں۔۔۔
امی یہ موٹی خود کھاۓ جا رہی ہے مجھے نہیں دے رہی تبھی بال کھینچ رہا تھا۔۔ثمر معصومیت سے بولا۔۔۔
جھوٹے اتنی ساری دیں تھیں۔۔۔تم جلدی اپنے حصے کی کھا چکے ہو۔۔۔اوراب میرے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔۔۔پر یاد رکھنا میں بھی تمہیں نہیں دونگی۔۔۔سمجھے تم۔۔۔سجل اسے گھورتے ہوۓ بولی۔۔۔
ایک دم چپ۔۔اب تم دونوکی آواز مجھ تک نہ پہنچے ورنہ دونو کی ٹانگیں اب میں خود توڑوں گی۔۔وہ بھی اس بیلن سے۔۔۔پتا نہیں کب وہ دن آئے گا۔۔۔جب یہ حکومت والے اتوار کی چھٹی ختم کریں گے۔۔۔ہر ماں کے دل سے دعائیں نکلے گی اگر ایسا ہوگیا۔۔۔بڑبڑاتے ہوئے واپس کچن میں داخل ہوگئی۔۔۔
انکے اندر جاتے ہی ثمر سجل کے پاس آیا وہ جانتا تھا۔۔۔اب وہ مارے گا تو اسے بھی امی سے مار کھانی پڑے گی۔۔۔اس لیے اس نے محبت کا طریقہ لڑانے کا سوچا۔۔۔۔
سجل آپی۔۔۔؟؟ثمر نے محبت بھرے لہجے میں اسے آواز دی۔۔۔
اسکے ایسے بولنے پر تو سجل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔۔۔
کیا ہے۔۔۔سجل چڑ کر بولی۔۔۔
کچھ نہیں بس۔۔۔میں سوچ رہاہوں۔۔تم کچھ دن سے زیادہ پیاری نہیں ہوگئی۔۔۔کونسی کریم لگا رہی ہو۔۔۔وہ اب اسے مکھن لگا رہا تھا۔۔۔
میں ویسے ہی بہت پیاری ہوں۔۔مجھے کیا ضرورت ہے کریم لگانے کی۔۔۔سجل کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔۔۔
ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔۔۔تم تو واقعی بہت پیاری ہو۔۔۔تمہاری تو دوستے بھی بہت تعریف کرتی ہو گی۔۔۔ثمر اب اسے باتو میں لگارہا تھا۔۔۔
کوئی ایسی ویسی دیوانی ہے میری۔۔۔ بلکہ کالج میں تو ہر لڑکی مجھ سے دوستی کرنا چاہتی ہے پر میں کسی کو لفٹ نہیں کرواتی۔۔وہ اپنی ہی دھن میں مگن بڑی فخریہ انداز میں بتا رہی تھی۔۔۔اور ثمر اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکی ساری چپس کھا چکا تھا۔۔۔۔
اچھا بس بہت بولتی ہو تم۔۔۔ناگواری سے کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
پہلے تو سجل نے اسےگھورا پھر اپنی پلیٹ میں دیکھا جس میں صرف ایک چپس اسکو منہ چڑا رہی تھی۔۔۔
ثمر کے بچے میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔کہتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگی پر تب تک ثمر بہت دور نکل گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤

   1
0 Comments